28-Dec-2021 حضرت موسیٰ علیہ السلام
حضرت موسیٰ علیہ السلام
قسط_نمبر_
نواں_حصہ
◆فرعون اللہ تبارک و تعالی کے وجود کا انکار کرتا تھا اور دعوی کرتا تھا کہ وہ خود معبود ہے چنانچہ اس نے سب کو جمع کر کے اعلان کیا۔ ’’ تم سب کا سب سے بلند و بالا رب میں ہی ہوں ۔‘‘ (النازعات: 24/79) دوسرے مقام پر اس طرح سے اس اعلان کو بیان کیا: "اے درباریو! میں تو اپنے سوا کسی کو تمہارا معبود نہیں
جانتا۔‘‘(القصص:38/28)
وہ محض ہٹ دھرمی کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہا تھا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ ایک بندہ ہے، جو کسی اور کے سایہ ربوبیت میں ہے اور اللہ ہی خالق اور سچا معبود ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
انہوں نے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر انکار کر دیا حالانکہ ان کے دل یقین کر چکے تھے ۔ پس دیکھ لیجیے ان فتنہ پرداز لوگوں کا انجام کیسا ہوا؟‘‘ (النمل: 14/27)
◆ اسی وجہ سے اس نے موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا انکار کرتے ہوۓ اور یہ اظہار کرنے کے لیے کہ آپ کو مبعوث فرمانے والے کسی رب کا کوئی وجود نہیں، یہ کہا: "رب العالمین کیا ہوتا ہے؟‘‘ کیونکہ موسیٰ اور ہارون علیہ السلام نے فرمایا تھا: ہم بلاشبہ رب العالمین کے بھیجے ہوۓ ہیں ۔‘‘ گویا وہ کہہ رہا تھا کہ وہ رب العالمین کون ہے جس کے بارے میں تمہارا دعوی ہے کہ اس نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے اس کے جواب میں کہا: ’’وہ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین رکھنے والے ہو۔‘‘ یعنی جہانوں کا رب وہ ہے جس نے آ سانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، جو تمہاری نظروں کے سامنے ہیں اور ان کے درمیان بہت سی مخلوقات کو پیدا کیا ہے ۔ مثلا: بادل ، ہوائیں ، بارش ، نباتات اور حیوانات جن کے بارے میں ہر یقین رکھنے والا جانتا ہے کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آ گئے ، لازما کوئی انہیں وجود بخشنے والا اور پیدا کر نے والا ہے اور وہ اللہ رب العالمین ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔
فرعون نے اپنے وزیروں ،امیروں اور درباریوں سے کہا: " کیا تم سن نہیں رہے؟‘‘ یعنی موسیٰ علیہ السلام کی باتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: کیا تم اس کی بات سن رہے ہو؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کے درباریوں کو مخاطب کر تے ہوۓ فرمایا: ’’وہ تمہارا اور تمہارے اگلے باپ دادا کا پروردگار ہے ۔‘ مطلب یہ ہے کہ اس نے تمہیں اور تم سے پہلے تمہارے آباءواجداد کو پیدا کیا تھا۔ یہ بات ہرشخص جانتا ہے کہ فرعون نے اپنے آپ کو پیدا نہیں کیا، نہ ماں باپ کو پیدا کیا ، نہ وہ کسی پیدا کر نے والے کے بغیر وجود میں آ گیا۔ بلکہ اسے اللہ نے پیدا کیا ہے جو تمام جہانوں کا مالک ہے ۔ انہیں دو نکتوں کی طرف اس فرمان میں توجہ دلائی گئی ہے:
" عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق ( عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی ، یہاں تک کہ ان پر کھل جاۓ کہ حق یہی ہے ۔‘‘ (حم السجدۃ:53/41)
اس کے باوجود فرعون اپنی مدہوشی سے ہوش میں نہ آیا اور گمراہی کو ترک نہ کیا بلکہ سرکشی ،عناد اور کفر پر اڑا رہا۔ اس نے کہا: ’’(لوگو!) تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، یہ تو یقینا دیوانہ ہے ۔
◆حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
’’وہی مشرق و مغرب کا اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگرتم عقل رکھتے ہو۔ یعنی یہ چمکتے ستارے، یہ گردش کرتے آسمان اس کے حکم کے پابند ہیں ، وہ نور وظلمت کا خالق ہے ، زمین و آسمان کا مالک ہے وہ پہلوں ، پچھلوں کا رب ہے، سورج، چاند، ستاروں اور سیاروں کا پیدا کر نے والا ہے اس نے رات کو اور اس کے اندھیرے کو پیدا کیا، اس نے دن کو اور اس کے اجالے کو بھی پیدا کیا۔ سب اسی کے حکم سے ، اسی کے قانون کے مطابق چل رہے ہیں اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں، اپنے اپنے وقت پر
طلوع اور غروب ہو رہے ہیں وہی خالق و مالک ہے جو اپنی مخلوقات میں جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
★ فرعون کی موسیٰ علیہ السلام کو دھمکی:
فرعون جب دلائل کے میدان میں شکست کھا گیا، اس کے شبہات کا واضح جواب مل گیا اور اس کے پاس عناد اور ضد کے سوا انکار کی کوئی بنیاد نہ رہی تو اس نے اپنی بادشاہت ، اقتدار اور اختیارات کا رعب ڈالنا چاہا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
فرعون کہنے لگا: (سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں شامل کروں گا ۔موسی نے کہا: اگرچہ میں تیرے پاس کوئی کھلی چیز لے آؤں تو بھی ؟ فرعون نے کہا:اگر تو سچوں میں ہے تو اسے پیش کر ۔ آپ نے اسی وقت اپنی لاٹھی ( زمین پر ڈال دی ، جوا چا نک زبردست اژدہا بن گئی اور اپنا ہاتھ کھینچ نکالا تو وہ بھی اس وقت دیکھنے والوں کو سفید چمکیلا نظر آنے لگا ۔‘‘ (الشعراء 29/26-33)
◆یہ وہ دو معجزے ہیں، جن کے ساتھ اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی یعنی عصا اور ید بیصا۔ اس مقام پر اللہ تعالی نے ایسی خرق عادت اشیا ظاہر فرمائیں جن کو دیکھ کر عقلیں سشدر رہ گئیں اور آنکھیں خیرہ ہوگئیں ۔ جب آپ نے اپنی لاٹھی زمین پر پھینکی تو وہ بہت بڑا خوفناک سانپ بن گئی ۔ یہ منظر اتنا دہشت زدہ کر نے والا تھا کہ ایک قول کے مطابق یہ معجزہ دیکھ کر فرعون شدید خوف زدہ ہو گیا ۔
اسی طرح جب موسیٰ علیہ السلام نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چاند کے ٹکڑے کی طرح چمک رہا تھا اور اس کے نور سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں ۔ جب آپ نے دوبارہ گربیان میں ڈال کر نکالا تو وہ عام حالت میں واپس آ چکا تھا۔ ان سب دلائل سے بھی فرعون کو کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ وہ اپنے کفر پر اڑا رہا۔ اس نے ان معجزات کو جادو قرار دیا اور اس کا مقابلہ جادو کے ذریعے سے کرنا چاہا۔ اس نے اپنے ملک کے ان تمام جادوگروں کو جمع کر نے کے لیے آدمی بھیج دیے جواس کی رعیت میں شامل تھے لیکن اس کے نتیجے میں حق کی حقانیت مزید واضح اور پختہ ہوئ۔
فرعون کو دلائل و معجزات کے ساتھ دعوت توحید:
اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف بھیجا کہ اسے نرمی اور دلائل کے ساتھ دعوت حق پہنچائیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے احسن انداز میں اسے تبلیغ کی مگر وہ متکبر کسی طور پر نہ سمجھا بلکہ اپنی ہٹ دھری اور دشمنی پر ڈٹا رہا۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
پھر تو کئی سال مدین کے لوگوں میں ٹھہرا رہا۔ پھر اے موسیٰ! تو تقدیر الہی کے مطابق تو آیا اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لیے پسند فرما لیا۔ اب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراہ لیے ہوۓ جا اور ( خبر دار!) میرے ذکر میں سستی نہ کرنا۔ تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ ! اس نے بڑی سرکشی کی ہے ، سو اسے نرمی سے سمجھاؤ ، شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جاۓ ۔ دونوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جاۓ ۔ جواب ملا: تم ( کسی قسم کا خوف نہ کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں اورسنتا دیکھتا رہوں گا ۔“ (طه: 40/20-46)
◆اللہ تعالی نے جس رات موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا اور نبوت کا منصب عطا فرمایا، اس وقت کلام کرتے ہوۓ فرمایا: جب تو فرعون کے گھر میں رہتا تھا، میں اس وقت بھی تیری دیکھ بھال ، حفاظت کرتا تھا اور تجھے میری عنایت حاصل تھی ، پھر میں نے تجے مصر سے نکال کر مدین پہنچا دیا۔ اس میں میری مشیت ، قدرت اور تدبیر ہی کارفرما تھی ۔ تو سالوں وہاں رہائش پذیر رہا۔ ’’پھر تو تقدیر کے مطابق آیا۔‘یہ بھی میرا ہی فیصلہ تھا۔ ’’اور میں نے تجھے خاص اپنی ذات کے لیے پسند فرما لیا۔‘‘ تا کہ تجھے اپنا کلام عطا فرما کر رسول بنا دوں ۔
پاب تو اپنے بھائی سمیت میری نشانیاں ہمراہ لیے ہوۓ جا۔ اور جب تم دونوں فرعون کے پاس پہنچ جاؤ تو ’’میرے ذکر میں سستی نہ کرنا۔‘‘ اس کی برکت سے تمہیں فرعون سے بات کرنے میں نصیحت کرنے میں اور دلائل پیش کر نے میں مدد حاصل ہوگی ۔
پھراللہ تعالی نے فرمایا: تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ ! اس نے بڑی سرکشی کی ہے ۔ اسے نرمی سے سمجھاؤ۔ شاید وہ سمجھ لے یا ڈر جاۓ ۔‘‘ اس سے اللہ تعالی کا حلم وکرم اور مخلوق پر اس کی رافت و رحمت ظاہر ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی کوفرعون کا کفر،عناد اور تکبر معلوم تھا۔ وہ اس دور کا بدترین انسان تھا اور اللہ تعالی اس کی طرف زمانے کے افضل ترین انسانوں کو بھیج رہا تھا پھر بھی انہیں یہی حکم دیا کہ اسے اچھے طریقے سے اور نرمی سے تبلیغ کریں اور اس سے اس طرح پیش آ ئیں جس طرح اس شخص سے بات کی جاتی ہے جس کے بارے میں نصیحت قبول کرنے کی اور خدا خوفی کی امید ہو۔ جیسے اللہ تعالی نے رسول اکرم ﷺ سے فرمایا:
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو اللہ کی وحی اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجیے ۔‘‘ (النحل : 125/16)
اور فرمایا:
اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو ۔‘‘ (العنکبوت: 46/29)
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا: ’’اے ہمارے رب! ہمیں خوف ہے کہ کہیں فرعون ہم پر کوئی زیادتی نہ کرے یا اپنی سرکشی میں بڑھ نہ جاۓ ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ فرعون سرکش، جباراور مردود شیطان تھا۔ ملک مصر کے طول وعرض میں اس کی حکومت تھی ۔ وہ بڑے لشکروں پر حکم چلانے والا اور جاہ وجلال کا مالک تھا۔ اس لیے بشریت کے تقاضے سے انہیں خوف محسوس ہوا کہیں وہ شروع ہی سے ظلم وزیادتی کا رویہ اختیار نہ کرے۔ اللہ تعالی نے انہیں تسلی دیتے ہوۓ فرمایا: ’’ تم مطلقاً خوف نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں اور سنتا دیکھتا رہوں گا ۔‘‘ جیسے دوسرے مقام پر ارشاد ہے : (الشعراء: 15/26) ہم خود سننے والے تمہارے ساتھ ہیں ۔
◆دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے یوں فرمایا:
”تم اس کے پاس جا کر کہو: ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں ۔ تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔ ان کی سزائیں موقوف کر ۔ ہم تو تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر آئے ہیں اور سلامتی اس کے لیے ہے جو ہدایت کا پابند ہو جاۓ ۔ ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے، اس کے لیے عذاب ہے۔‘‘ (طہ: 47/20'48)
اللہ تعالی نے موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کو حکم دیا کہ فرعون کے پاس آ کر اسے اللہ کی طرف بلائیں اور اسے توحید کی دعوت دیں کہ وہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرے اور بنی اسرائیل کو قید و بند سے آزاد کر کے ان کے ساتھ بھیج دے اور انہیں عذاب میں مبتلا نہ ر کھے۔ ’’ہم تیرے پاس تیرے رب کی طرف سے دلیل لے کر آۓ ہیں ۔ وہ عظیم دلیل عصا اور ید بیضا کے معجزات ہیں۔ اور سلامتی اس کے لیے ہے جو ہدایت کا پابند ہو جاۓ ۔‘ یہ ایک بلیغ عظیم اور مفید نکتہ ہے ۔ پھر دونوں حضرات نے فرعون کو تکذیب کے برے نتیجے سے آگاہ کرتے ہوۓ فرمایا: ’’ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لیے عذاب ہے ۔‘‘یعنی دل سے تکذیب کرے اور بدن کے ساتھ عمل سے پہلو تہی کرے۔
(حوالہ: قرآن و احادیث صحیحہ کی روشنی میں
ماخوذ ازالبدایہ والنہایہ
تالیف / امام ابوالفداءابن کثیرالدمشقی رحمتہ علیہ)
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طالب دعا ء
ڈاکٹر عبد العلیم خان
adulnoorkhan@gmail.com
Manzar Ansari
03-Feb-2022 05:13 PM
Good
Reply
Dr.Abdul Aleem khan
12-Jan-2022 06:41 PM
Thanx
Reply
Dr. SAGHEER AHMAD SIDDIQUI
12-Jan-2022 02:03 PM
Mubarak ad
Reply